خطرناک غلطیاں جو 30 سال کی عمر کے افراد کرتے ہیں

خطرناک غلطیاں جو 30 سال کی عمر کے افراد کرتے ہیں




جب بات ہمارے جسموں کی ہو، تو ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے بدترین دشمن خود ہیں۔ درحقیقت موجودہ عہد کے طرز زندگی کے نتیجے میں لوگوں میں ایسی عادتیں عام ہوتی جارہی ہیں جو صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہیں، حالانکہ بیشتر امراض کی روک تھام درست عادات کو اپناکر ممکن ہے۔ ڈان کے مطابق جب لوگوں کی عمر 30 سال سے زائد ہوتی ہے تو ضرورت ہوتی ہے کہ چند عناصر کے بارے میں شعور اجاگر کیا جائے جبکہ اپنے جسموں کی دیکھ بھال کے لیے صحت مند عادتوں کو اپنالیا جائے۔ تو یہاں ایسی ہی غلطیوں کا ذکر ہے جو 30 سال کے بعد اپنانا تباہ کن ہوسکتی ہیں۔

ورزش کے لیے وقت نہ مل پانا
صحت مند جسمانی وزن بہت ضروری ہوتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ورزش لازمی ہے۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ روزمرہ کی مصروفیات کی وجہ سے ورزش کے لیے وقت نہیں ملتا تو یہ صدیوں پرانا جواز ہے، حالانکہ 15 منٹ کی تیز چیل قدمی بھی طویل المعیاد بنیادوں پر جسمانی فٹنس کے حصول میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

ورزش کا کوئی معمول نہ ہونا
آپ کو اپنی ورزش کا معمول پہلے سے طے کرنا چاہئے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ورک آﺅٹ کے دوران یہ نہ سوچنا پڑے کہ اب کونسی ورزش کرنی ہے۔ گھر میں ورزش کریں یا جم کا رخ کریں، معمولات کا طے ہونا لازمی ہے۔

بہت زیادہ وقت بیٹھنا
کمپیوٹر اب ہماری زندگیوں کا لازمی حصہ بن کر رہ گئے ہیں مگر اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے ہم روزانہ دفاتر میں 8 سے 9 گھنٹے بیٹھ کر گزارتے ہیں۔ یہ صحت کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اور ہر گھنٹے بعد 5 منٹ کی چہل قدمی سے اس نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔

ڈائیٹنگ
جسمانی وزن میں کمی ضرور لائیں مگر اس کے لیے کھانا پینا نہ چھوڑیں، کیونکہ یہ کمی بتدریج لانا ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ مستحکم ہو، بہت تیزی سے جسمانی وزن کم کرنے سے میٹابولزم کو نقصان پہنچتا ہے اور طویل المعیاد بنیادوں پر وزن بڑھتا ہے۔ توازن صحت مند زندگی کی کنجی ہے، چاہے وہ غذا ہو یا ورزش۔

باہر کھانے کی عادت
اگر آپ اکثر گھر کی بجائے باہر کھانے کے عادی ہیں تو یہ عادت صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے، باہر کھانے سے اضافی خرچہ بھی ہوتا ہے جبکہ غذا کا معیار کیسا ہوگا، اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔

کم پانی پینا
درمیانی عمر میں آکر اکثر افراد اپنی مصروفیات کے باعث مناسب مقدار میں پانی پینے پر توجہ نہیں دیتے، حالانکہ ہر ایک کو معلوم ہوتا ہے کہ مناسب مقدار میں پانی پینا ضروری ہوتا ہے مگر وہ اس کی پروا نہیں کرتے۔ پانی کم پینا جسمانی توانائی میں کمی، سردرد اور جنک فوڈ کی اشتہا بڑھاتا ہے، جبکہ گردوں میں پتھری کا خطرہ بھی بڑھتا ہے
Naseem Akhtar Health Care

دودھ سے دوری ہڈیوں کے امراض کا باعث بنتی ہے، ماہرین

دودھ سے دوری ہڈیوں کے امراض کا باعث بنتی ہے، ماہرین


دودھ سے دوری ہڈیوں کے امراض کا باعث بنتی ہے، ماہرین لندن : آج کل غذا تیزی سے فیشن ایبل ہوتی جارہی ہے جس کے نتیجے میں خوراک میں سے دودھ، اجناس، ریفائن شکر اور گلوٹین کا اخراج ہوتا جارہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں دودھ یا اس سے بنی مصنوعات پر مبنی غذا کا استعمال نہ کرنا نوجوانوں میں ہڈیوں کے امراض کا باعث بن رہا ہے۔یہ انتباہ برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔نیشنل اوسٹیوپروسیز سوسائٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ اٹھارہ سے 24 سال کے ہر دس میں سے چار افراد ہڈیوں کے لیے ضروری غذا جیسے دودھ سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔تحقیق میں بتایا گیا کہ ہڈیوں کے لیے کیلشیئم بہت ضروری ہوتا ہے اور دودھ یا اس سے بنی مصنوعات میں اس کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جو ہڈیوں کو تحفظ دیتی ہے۔محققین کا کہنا تھا کہ لڑکپن میں غذا کا خیال رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے کیونکہ عمر کی تیسری دہائی میں ناقص غذا اور غذائیت کی کمی بہت بھاری ثابت ہوسکتا ہے اور ہڈیوں کو مضبوط کرنے کا موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔تحقیق کے مطابق لڑکپن سے ناقص غذا کے استعمال کے باعث آج فریکچر کے شکار ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور انہیں مستقبل میں پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تحقیق کے مطابق ان غذاو¿ں سے دوری ہڈیوں کی نشوونما پر طویل المعیاد بنیادوں پر مضر اثرات مرتب کرنے کا باعث بنتا ہے۔

بھنڈی کا پانی پینے سے انتہائی مہلک بیماری محض تین دن میں ختم ۔

بھنڈی کا پانی پینے سے انتہائی مہلک بیماری محض تین دن میں ختم ۔

Naseem Akhtar health care

سلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) تین سے پانچ دن میں ذیابیطس سے فوری نجات کیلئے ایک مجرب 
گھریلو نُسخہ پیش خدمت ہے۔ بہت لوگوں نے آزمایا اور دُعائیں دیں۔ آپ بھی آزما کر دیکھئے۔۔جاری ہے۔ اور جو رزلٹ آپ کو ملیں ہمارے پیج پر شئیر کریں۔ اس پوسٹ کو جتنا ہوسکے شئیر کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچ --> سکے۔تین عدد بھنڈیاں لیکر اُن کے سرے کاٹ دیں، اور ہر بھنڈی کو چھری سے ایک ایک چیرا لگا دیں تاکہ اُس کے اندر جو لیس ہوتی ہے وہ باہر نکلنی شروع ہوجائے۔ ا۔۔ ۔ ب بھنڈیوں کوساری رات پانی کے ایک کپ میں رہنے دیں۔ صبح ناشتہ کرنے کے ایک گھنٹہ بعد بھنڈیا ں کپ سے نکال دیں اور پانی پی لیں۔ بس اتنا سا کام ہے اس کے ایک گھنٹے بعد اپنی شوگر چیک کریں۔ جن کی 300 سے اُوپر شوگر رہتی ہے وہ اس پانی کو تین دن پئیں تو بتاتے ہیں۔۔جاری ہے۔ کہ شوگر 150 سے بھی کم ہوجاتی ہے۔ اللہ نے بھنڈی کے پانی میں انسولین کےمعجزاتی خواص رکھے ہیں۔

زبان کی لکنت – زبان کی لکنت یا ہکلانا کیا ہے؟

زبان کی لکنت – زبان کی لکنت یا ہکلانا کیا ہے؟
لکنت یا ہکلانا ، بولنے میں ایک مسئلہ ہے، جس مں آواز یا الفاظ کو بار بار دہرانا، یا بولتے ہوئے لمبا کر دینا شامل ہے جس سے بولنے کے تسلسل میں رکاوٹ آتی ہے اور سننے والے کو سمجھنے میں دقت کا سامنا کرنے کے علاوہ بولنے والے کو خفت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بولنے میں اس رکاوٹ کے ساتھ کئی دوسری ظاہری علامات کا ساتھ بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ پلکوں کو تیز تیز جھپکنا یا ہونٹوں کو الفاظ کے اٹکنے کی صورت میں جھٹکے لگنا۔ لکنت کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ بات کرنے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، جس سے اکثر اس مسئلہ کا شکار شخص کی زندگی کئی مسائل کا شکار ہو سکتی ہے۔
ایک شخص کے لیے لکنت کی علامات مختلف اوقات میں واضح طور پر مختلف ہو سکتی ہیں۔ عموماً لوگوں کے سامنے بات کرتے ہوئے یا فون پر بات کرتے ہوئے یہ علامات شدت اختیار کر جاتی ہیں اور انسان زیادہ ہکلانے لگتا ہے، جبکہ گانا گاتے، پڑھتے اور اکیلے میں بات کرتے ہوئے یہ ہکلانا عارضی طور پر کم ہو جاتا ہے۔ 

لکنت کا شکار افراد 
لاکھوں افراد ایسے ہیں جو ہکلاتے ہیں، اور یہ مسئلہ ہر عمر کے افراد کو متاثر کرتا ہے۔ زیادہ تر یہ بچوں میں ہوتا ہے جب ان کی عمر 2 سے 5 سال کے بیچ ہوتی ہے اور وہ بولنے میں مہارت حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ تمام بچوں میں سے 5 فیصد بچے زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر ہکلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں جو کہ کچھ ہفتوں سے کچھ سالوں پر محیط ہو سکتی ہے۔ لڑکوں میں لڑکیوں کی نسبت لکنت کا شکار ہونے کا تناسب دگنا ہے۔ کئی بچے بڑھتی عمر کے ساتھ لکنت سے نجات حاصل کر لیتے ہیں۔ بالغوں میں لکنت کے شکار افراد کا تناسب 1فیصد سے کم ہے۔ 
لکنت کیوں ہوتی ہے؟ 
گو کہ لکنت کی وجوہات کے حتمی میکنزم کو ابھی تک درست طریقے سے نہیں سمجھا جاسکا، لیکن لکنت کی دو اقسام زیادہ عام ہیں [ لکنت کی ایک تیسری قسم جسے سائیکوجینک کا نام دیا جاتا ہے، جذباتی صدمے یا سوچنے اور دلیل دینے کے دوران ہو سکتی ہے۔ ایک دور میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہر قسم کی لکنت کی وجہ سائیکوجینک ہے، لیکن موجودہ دور میں سائیکوجینک قسم انتہائی کم پائی جاتی ہے]۔ 
نشوونمائی لکنت [ڈیویلپمنٹل ] 
اس قسم کی لکنت بچوں میں اس مرحلے کے دوران ہوتی ہے جب وہ بولنا اور زبان سیکھ رہے ہوتے ہیں۔یہ لکنت کی سب سے عام قسم ہے۔کچھ ماہرین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس کہ وجہ بچوں کے زبان اور بولنا سیکھنے کے دوران ان کے بولنے کی ڈیمانڈ اور سیکھنے کے عمل کا فرق/گیپ ہے۔اس قسم کی لکنت موروثی بھی ہوتی ہے۔ 
دماغی مسائل کی وجہ سے لکنت [نیوروجینک] 
اس قسم کی لکنت کی وجہ کوئی دورہ، دماغی صدمہ، یا کسی اور قسم کی دماغی چوٹ ہو سکتی ہے۔اس قسم کی لکنت دماغ کو بولنے کے لیے ضروری مختلف عوامل کے ابلاغ میں مشکل پیش آنے کی وجہ سے ہوتی ہے، جس کی وجہ دماغ اور اعصاب کے مابین سگنل کی متواتر ترسیل میں درپیش مسائل ہوتے ہیں۔ 
لکنت کی تشخیص 
لنکت کو عموماً زبان اور بولنے کے ماہر – سپیچ لینگوئج پیتھالوجسٹ ، تشخیص کرتے ہیں۔ان ماہرین کو ایسے لوگوں کو ٹسٹ اور علاج کرنے کے لیے مہارت سکھائی جاتی ہے جو آواز، بولنے اور زبان کے مسائل /خرابی میں مبتلا ہوتے ہیں۔یہ ماہرین مختلف عوامل پر غور کرتے ہیں جن میں کیس کی ہسٹری، لکنت کے دوران بچے کا طرزِ عمل، بچے کی زبان دانی اور اس کی بات کر سکنے یا بولنے کی صلاحیتوں کا اندازہ لگانا اور بچے کی زندگی پر اس لکنت کے اثرات کا اندازہ لگانا شامل ہیں۔ 
بچے کی لکنت کا اندازہ لگاتے ہوئے یہ ماہرین اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ کیا بچہ اس کا مستقل شکار رہے گا یا وقت کے ساتھ اس سے نجات پا جائے گا۔اس بات کا تعین کرتے ہوئے یہ ماہرین خاندان میں پائی جانے والی علامات کو بھی بغور دیکھتے ہیں کہ آیا خاندان میں پہلے بھی اس مسئلہ کا شکار بننے والے موجود ہیں اور آیا خاندانی تاریخ میں پہلے بھی کوئی ایسا کیس سامنے آ چکا ہے؟ کیا بچے کو لکنت کا شکار ہوئے چھ ماہ سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے؟ اور آیا کیا بچ زبان اور بولنے سے متعلق اور مسائل کا شکار ہے یا نہیں؟ 
لکنت کا علاج 
گو کہ اس وقت لکنت کا کوئی علاج موجود نہیں، لیکن کچھ طریقہ کار موجود ہیں ۔یہ طریقہ کار مریض کی عمراور دیگر عوامل پر منحصر ہیں۔اگر آپ کا بچہ لکنت کا شکار ہے تو بہتر یہی ہے کہ آپ فوراً اس کے ماہرین سے رابطہ کریں اور لکنت کے مسئلہ اور شدت کا تعین کروائیں تاکہ اس کے مطابق طریقہ کار اپنایا جا سکے۔ 
بہت چھوٹے بچوں میں شروع میں کی گئی تشخیص اور اس سے متعلق طریقہ کار اختیار کرنے سے ڈیویلپمنٹل لکنت کو زندگی بھی کا مسئلہ بننے سے روکا جا سکتا ہے۔ مخصوص حکمت عملی اپنا کر بچوں کو مثبت کمیونیکیشن کے ذریعے اعتماد دلا کر بھی اس مسئلہ پر قابو پانے میں مدد لی جا سکتی ہے۔کچھ محقق اس بات پر متفق ہیں کہ لکنت کا شکار بچوں کی ہر تین ماہ بعد چیکنگ اور ان کے ہکلانے کی سطح اور شدت کا تعین کرنا چاہے کہ آیا اس میں اضافہ یا کمی ہوئی ہے۔ان طریقہ جات میں اکثر والدین کوبچوں میں روانی سے بولنے سے متعلق سکھانا بھی شامل ہے۔والدین کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ؛ 
• بچے کو گھر میں آرام دہ اور پر سکون ماحول فراہم کریں اور اسے بولنے کے لیے وافر مواقع فراہم کریں تاکہ وہ زیادہ بول سکے۔بچوں سے باتیں کریں، خاص کر اس وقت جب بچہ کسی چیز کی بارے میں بہت پرجوش ہو اور با ت کرنا چاہ رہا ہو۔ 
• جب بچہ ہکلا رہا ہو، تب اس کی جانب منفی رویہ اپنانے سے سختی سے گریز کریں۔ بچے کا مذاق نہ اڑائیں اور نہ ہی اس کی نقل اتاریں۔ جب بچہ روانی سے بولے تو اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ 
• بچَے کو کسی خاص طریقے سے بولنے پر مجبور کرنے سے احتراز کریں۔خاص کر جب آپ دیکھ رہے ہوں کہ اسے ایسا کرنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 
• آہستہ، سست روی اور آرام سے بات کریں۔اس طریقہ سے بچے پر تیز بات کرنے کا پریشر نہیں پڑے گا اور وہ کسی دباو کے بغیر آسانی سے پکلائے بغیر بات کرسکے گا۔ 
• جب بچہ بات کرے تو اس کی بات کو دھیان سے سنیں اور وہ جو بات یا لفظ کہنا چاہ رہا ہے اسے اس بات اور لفظ کو مکمل کرنے دیں۔بچے کا فقرہ مکمل کرنے کی کوشش نہ کریں اسے خود سے فقرہ اور لفظ مکمل کرنے دیں۔اس کے علاوہ بچے کو یہ بھی بتائیں کہ وہ ہکلاتے ہوئے بھی اپنی بات اور اپنا مدعا دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔ 
• اگر بچہ ہکلانے کے بارے میں بات کرے تو اس سے کھل کر اس موضوع پر بات کریں۔ اسے بتائیں کہ بات کرتے ہوئے درمیان میں رکاوٹ آجاتی ہے۔ 
لکنت کے لیے تھراپی 
موجودہ دور کی کئی تھراپیز / طریقہ علاج جو کہ بچوں اور نوجوانوں میں لکنت کو دور کرنے کے لیے اپنائی جا رہی ہیں، کا بنیادی مقصد ایسے طریقوں کو سکھانا ہے جن سے ہکلاہٹ میں کمی ہو، مثلاً آہستگی سے بولنا، سانس کی رفتار کو برقرار رکھتے ہوئے اس پر قابو پانا، اور آہستہ آہستہ چھوٹے الفاظ سے مڑے الفاظ اور بڑے جملوں کو بولنے کی مشق کرنا ہے۔ ان تھراپیز کی مدد سے ہکلاہٹ یا لکنت کا شکار ہونے کے دوران ہونے والی گھبراہٹ پر قابو پانے میں بھی مدد ملتی ہے۔

مائیگرین کا علاج، احتیاط اور ڈائیٹ

مائیگرین کا علاج، احتیاط اور ڈائیٹ
سر کے ایک سائیڈ میں شدید درد کو مائیگرین کہا جاتا ہے اور بعض اوقات یہ اس وقت شدت اختیار کرجاتا ہے جب دن بھر کی تھکا دینے والی سرگرمیوں اور مصروفیت کے باعث اس کا بر وقت علاج نہ کیا جائے ۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کو سائینس ہو یا سر میں کسی پریشانی کی وجہ سے شدید درد کو بھی لوگ مائیگرین کا نام دے دیتے ہیں۔ ناقص غذا، ذہنی دباؤاور ہارمونز کی تبدیلی بھی مائیگرین کا جنم دیتی ہیں۔اس سے نجات کیلئے اگر آپ کے پاس کچھ بھی نہ ہو تو 3عدد اسپرین کی گولیاں پانی میں مکس کر کے پی لیں ،شدید درد کی صورت میں دو عدد NSAIDS(NON STERIOD ANTI -INFLAMMMATORY DRUGS)کھالیں مثلاً اسپرین اور ایبوپروفن وغیرہ۔اگر شدید درد کی صورت میں چکر آئیں تو دو عدد Stemetilکھالیں۔اگر اٗلٹی آتی ہو تو Marzine Syrup پی لیں

آپ نے اکثر ایسے لوگوں کو دیکھا ہو گا جو تھوڑی دیر بعد اپنی انگلیوں کی مدد سے کنپٹیوں کو دباتے رہتے ہیں۔ کیا آپ بھی انہی لوگوں میں شامل ہیں؟ آپ کے سر کا درد دراصل خود آپ کیلئے ایک مصیبت بن جاتا ہے۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ آپ بلاوجہ بہت ست چھوٹی چھوٹی باتوں میں خود کو ہلکان کئے رکھتے ہیں اس لئے ایک دن یہ چھوٹی سی باتیں ایک پہاڑ جیسی لگتی ہیں اور پھر یہ تمام باتیں آپ کو مستقل سوچنے سے بڑے سر درد کی طرف لے جاتی ہیں بعض لوگ اپنے سر درد کی وجوہات جان ہی نہیں پاتے اور مختلف میڈیسن استعمال کرتے رہتے ہیں اور نتیجتاً آپ خود کو سردرد کی مشکل سے نکال کر دواؤں کا عادی بنالیتے ہیں۔ 
سر درد کی دراصل کئی اقسام ہیں لیکن ان میں سرفہرست عام درد ہے جو گردن اور سر کے کسی حصے میں ایک ساتھ ہوتا ہے۔ اس نوعیت کے سر درد کے شکار ہر پانچ میں سے چار مریض ہوتے ہیں ۔موسم، دباؤ اور ان کے خون میں معمولی سی گڑبڑ عموماً اس کی وجہ ہوتی ہے۔ دوسرے قسم کا درد عموماً آدھے سر میں ہوتا ہے جسے اعصابی تناؤ بھی کہا جاتا ہے جسکی جڑیں جذباتی تناؤ، ڈپریشن، آنکھوں کے کھنچاؤ اور بیزاری سے جاکر ملتی ہیں جبکہ گردن اور کھوپڑی کے پٹھوں میں تناؤ کے سبب بھی سر کا درد پیدا ہوسکتا ہے۔ 
احتیاطی تدابیر :تیز دھوپ، شدید ٹھنڈ، تیز شور اور ذہنی دباؤ سے بچیں۔ 
ڈائیٹ:سادہ کسٹرڈ بنائیں، اس میں پائن ایپل، اسٹرابری اور ونیلا اینس اوپر ڈال کر کھائیں